news
سپریم کورٹ: 63اے اور بیرسٹرز کی گرما گرم بحث
سپریم کورٹ نے ارٹیکل 63 اے سے متعلق نظر ثانی کیس کی سماعت کرنے والے بینچ پر اعتراض مسترد کر دیا چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بانی پی ٹی ائی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سے مخاطب ہو کر کہا، آپ نے کہا فیصلہ سنا دیں تو ہم نے سنا دیا۔ ہم سب کا مشترکہ فیصلہ ہے بینچ پر اعتراض مسترد کرتے ہیں۔ بیرسٹر نے کہا بنچ تشکیل دینے والی کمیٹی کے ممبران بنچ کا حصہ ہیں ،خود کیسے بینچ کی تشکیل کو قانونی قرار دے سکتے ہیں؟ چیف جسٹس نےکہا کہ اگر ایسا ہو تو ججز کمیٹی کے ممبران کسی بینچ کا حصہ ہی نہ بن سکیں۔ ہمیں باتیں سناتے ہیں تو پھر سنیں بھی ججز سے بدتمیزی کا طریقہ آب عام ہو گیا ہے
کمرہ عدالت سے باہر جا کر یوٹیوبرز شروع ہو جائیں گے ،لوگوں کو یہاں مرضی کے بینچ کی عادت ہے وہ زمانے چلے گئے اب شفافیت آ گئی ہے۔ علی ظفر صاحب اب ججز کا انتخاب خود نہیں کر سکتے ،ایسا طرز عمل تباہ کن ہے۔ کیا ماضی میں یہاں سنیارٹی پر بینچ بنتے رہے؟ عدالت نے علی ظفر کی بانی پی ٹی ائی سے ملاقات کی استدا منظور کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کر دی
سپریم کورٹ میں ارٹیکل 63 اے نظر ثانی درخواست کی سماعت سے دوران چیف جسٹس اور پی ٹی ائی کے وکیل کے دوران سخت جملوں کا تبادلہ ،سید مصطفی کاظمی کو کمرہ عدالت سے نکال دیا گیا ۔مصطفیین کاظمی روسٹرم پرآئے تو چیف جسٹس نے انہیں بیٹھنے کو کہا اور کہا کہ اگر آپ نہیں بیٹھتے تو پولیس کو بلا لیتے ہیں ۔مصطفین کاظمی نے کہا آپ کر بھی یہی سکتے ہیں۔ مصتفین کاظمی نے بنچ میں شامل جسٹس نعیم اختر اعوان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر اعتراض اٹھا دیا۔ مصطفین کاظمی دوبارہ روسٹرم پر آئے اور کہا یہ پانچ رکنی بینچ غیر قانونی ہے ہم دیکھتے ہیں یہ فیصلہ کیسے ہوتا ہے
تین سووکیل باہر کھڑے ہیں ،آپ نے بہت کوشش کی ہم ناراض ہو جائیں ،ہم ناراض نہیں ہوں گے ۔چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کیا۔پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائک نے کہا جس انداز میں دلائل دیے گئے ہیں میری رائے پختہ ہو چکی ہے کہ ملک میں آئینی عدالت بننی چاہیے ۔
جسٹس فائز عیسی نے مسکراتے ہوئے کہا میں اس پر کچھ نہیں کہوں گا ۔ماحول ایک اور موقع پر تلخ ہوا جب سید مصطفین کاظمی روسٹرم پر آئے اور انہو ں نے کہا کہ یہ بینچ غیر قانونی ہے اور اس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے یہ ریمارکس دیئے گئے اور بیرسٹر علی ظفر سے پوچھا گیا کہ علی ظفر صاحب یہ کیا ہے؟ ہم اس سب کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے
مجھے اپنے طریقے سے دلائل دینے دیں نہیں تو میں چلا جاتا ہوں۔ مجھے اجازت دیں سپریم کورٹ طے کر چکی ہے کہ نظر ثانی کی مدت مختصر فیصلہ آنے کے بعد شروع ہو جاتی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے سوال کیا کہ کیا نظرثانی کو جلد سنا جانا ضروری نہیں ہوتا ؟انہوں نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ کیا ضرورت ہوتی ہے کہ چیف جسٹس اور ان کے ججز کے ریٹائرڈ ہونے تک نظر ثانی نہ لگائیں ؟چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ اس وقت وہی جج نظرثانی لگا کر فوری طور پر سن لیتے ہیں ۔بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ اپنے دلائل شروع کرنے سے پہلے ایک مسئلے کی نشاندہی کروں گا، ترمیمی ارڈیننس کہتا ہے ہر سماعت کو ریکارڈ کیا جائے گا ٹرانسکرپٹ دستیاب ہوگا ،اگر میرے دلائل ریکارڈ کیے جائیں تو ہی آگے بڑھوں گا
چیف جسٹس نے کہا کہ دلائل ریکارڈ ہوں گے ،ٹرانسپیرنٹ بھی دستیاب ہوگا۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں نے ایک درخواست دائر کی ہے جو سپریم کورٹ آفس ریکارڈ پر نہیں رکھ رہا ۔کل بھی کہا تھا آج بھی کہتا ہوں اپنے کلائنٹ بانی پی ٹی ائی سے ملنا چاہوں گا ۔اس کے ساتھ ساتھ بیرسٹر علی ظفر کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ جسٹس منصور علی شاہ ججز کمیٹی میں نہیں آئے جو پریکٹس اینڈ پروسیجر کے ساتھ قائم کی گئی اور ایک خط لکھ دیا میں چاہوں گا کہ وہ خط پڑھوں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف متعلقہ پیرا گرافس پڑھیں چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے وہ خط پڑھا تو اس کا جواب بھی پھر آپ کو پڑھنا ہوگا
آپ ججز کو یہاں شرمندہ کرنا چاہتے ہیں ۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ترمیمی ارڈیننس پر فل کورٹ کی بات کی بیرسٹر علی ظفر کی جانب سےدلائل میں یہ بھی کہا گیا کہ میں ارڈیننس کی قانونی حیثیت پر بات نہیں کر رہا ۔قانون کہتا ہے تین رکنی کمیٹی بیٹھ کر بینچ بنائے گی، میں کہہ رہا ہوں کہ بینچ کی تشکیل قانون کے مطابق نہیں ہوئی قانون کے مطابق بینچ کثرت رائے سے بنائے جائیں گے قانون میں کمیٹی کے دو ممبران کے بیٹھ کر بینچ بنانے کی گنجائش نہیں