news

دہشت گردوں کی باتوں میں نہ آئیں :عدیلہ بلوچ

Published

on

عدیلہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا :میرا نام عدیلہ ہے اور میرا تعلق تربت سے ہے میں نے ابتدائی تعلیم تربت سے حاصل کی اور اس کے بعد نرسنگ کوئٹہ بی ایم ایچ سے کی، اس وقت میں کوالیفائیڈ نرس ہوں میں ڈیوٹی بھی کرتی ہوں اور اس وقت ایک پروجیکٹ ڈبلیو ایچ او کے تحت چلا رہی ہوں میرا کام لوگوں کی مدد کرنا ،ان کی زندگیاں بچانا ہے لیکن بدقسمتی سے میں اس دوران ایسے لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہی جنہوں نے مجھے بہکا کر بھٹکا دیا اور مجھے اس حد تک بہکایا کہ میں خود کش حملے کے لیے تیار ہو گئی ۔ یہ بھی نہ سوچ پائی کہ میرے خود کش حملے کے بعد میری اپنی جان تو جائے گی لیکن میری وجہ سے اور کتنی جانیں ختم ہو جائیں گی۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس اس وقت ہوا جب مجھے پہاڑوں پر لے جایا گیا۔ میں نے اپنے والدین کی عزت کا بھی خیال نہ کیا مجھے بتایا گیا کہ وہاں جا کر آپ کو ایک نئی زندگی مل جائے گی لیکن وہاں ایسا کچھ بھی نہ تھا وہاں میں نے بہت سے نوجوانوں کو دیکھا جنہوں نے کلاشن کوفیں پکڑی ہوئی تھیں اور جن کے ساتھ میری ہی طرح انتہائی سخت رویہ تھا وہ بھی میری طرح بہکائے ہوئے ہی تھے اور یہ جو ہمارے ہاں اج کل تاثر پایا جاتا ہے کہ بلوچ خواتین خودکشی کرتی ہیں یہ سراسر غلط ہے میں بذات خود چشم دید گواہ ہوں یہ لوگ ورغلا کر بلیک میل کر کے لے جاتے ہیں میرا بچ جانا شاید اس لیے ہے کہ میری وجہ سے وہ لوگ بھی بچ گئے جو وہاں میری ہی طرح پکڑے ہوئے تھے میں حکومت بلوچستان کی شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے بچانے میں میری مدد کی اخر میں یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ اس طرح کے افراد کی باتوں میں مت آئیں۔


عدیلہ کےوالد نےکہا کہ ہماری اپنی ایک چھوٹی سی دنیا تھی مجھے علم بھی نہیں تھا کہ میری بیٹی کو بمبار خود کش بنایا جا رہا ہے بیٹی کے لاپتہ ہونے پر حکومت بلوچستان سے رابطہ کیا تو حکومت نے میری بات سنی اور بروقت کاروائی کر کے میری بیٹی کو بازیاب کروایا پہاڑوں پر رہنے والے بھی بلوچ ہیں اور ہم بھی بلوچ ہیں انہیں کسی صورت زیب نہیں دیتا کہ وہ ہماری بیٹیوں کو اٹھا کر وہاں لے جائیں اور ان سے اس طرح کے غلط کام کروائیں میری حکومت بلوچ سے درخواست ہے کہ وہ خود نوٹس لیتے ہوئے ان لوگوں کے خلاف کاروائی کریں تاکہ وہاں پر موجود دیگر نوجوان بچوں کو بھی بچایا جا سکے اور میں بچوں اور نئی نسل کے نوجوانوں کو بھی یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ سوشل میڈیا پر ہونے والے مختلف قسم کے پروپیگنڈوں سے خود کو بچائیں اور کسی کی بھی اسطرح کی باتوں میں مت ائیں ۔حکومتی ترجمان فرح عظیم شاہ نے کہا بلوچ اپنی عزت پر جان دینے والی قوم ہے مگر میں حیران ہوں کہ ہمارے اپنے ہی ہاتھوں ہماری اپنی ماؤں اور بیٹیوں کی عزتیں محفوظ نہیں ،ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ بلوچستان کو کیا چاہیے ۔پاکستان ایک نور ہے اور نور کو زوال نہیں ۔عدیلہ ایک جیتی جاگتی مثال ہے کہ ریاست نے ماں ہونے کا ثبوت دیا ،ریاست نے ہمیشہ زندگی بانٹی اور دوسری جانب وہ لوگ جس طرح موت کا کھیل کھیل رہے ہیں انہیں کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا ۔اج میں ان بلوچوں کو بھی یہ پیغام دیتی ہوں کہ خدارا اس لڑائی کو بند کریں جس میں نقصان صرف اور صرف بلوچستان اور بلوچی عوام کا ہے۔میں قانون نافذ کرنے والے اداروں ،بلوچستان اور بلوچی عوام کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں میں۔ یہاں ایک پیغام دینا چاہتی ہوں کہ حقوق کی بات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن جہاں بات پاکستان کے ائین کی ہوگی،ریڈ لائن کی ہوگی تو کسی صورت بھی حکومت پاکستان کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گی ۔خدارا آپس کی جنگ کو بھول کر واپسی کا راستہ اختیار کریں اور ایسے بچے بچیاں جو ان کے پاس قید ہیں ،میں ان کے والدین سے بھی کہتی ہوں کہ وہ آئیں اور حکومت سے رابطہ کریں، اپ کو جو مدد چاہیے وہ ہم دیں گے ۔بلوچستان یا پاکستاپربسنے والے سب ریاست کے بچے ہیں ۔آخر میں عدیلہ نے پیغام دیا کہ جو غلطی مجھ سے ہوئی یہ کوئی اور نہ کریں اس میں ہمارا ہی نقصان ہے میں نےوہاں تین دن گزارے ہمیں کوڈ نیم دیا جاتا تھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Trending

Exit mobile version