news

چیف جسٹس آف پاکستان کو بدنام کرنا سب سے آسان کام ہے: جسٹس قاضی فائز عیسی

Published

on

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی کا نام پکاریں تو سب ٹھیک ہے، سب سے آسان کام چیف جسٹس کو بدنام کرنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سرکاری جامعات میں مستقل وائس چانسلرز کی تقرری سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران وفاقی سیکرٹری تعلیم نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے ذریعے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کا آڈٹ کرانے کی یقین دہانی کرائی۔

آئی آئی یو آئی کی ریکٹر ثمینہ ملک کے وکیل ریحان الدین نے عدالت کو بتایا کہ ان کی موکلہ کی ریڑھ کی ہڈی میں درد ہے اس لیے وہ عدالت میں پیش ہونے کے لیے نہیں آ سکتیں۔

دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست میں ان کا نام ثمینہ ملک لکھا ہوا ہے جبکہ انہوں نے میڈیکل سرٹیفکیٹ میں اپنا نام ثمینہ رشید لکھا ہے۔ ”آپ نے اس کا جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کیا ہے۔ لہٰذا انہیں طلب کیا جا سکتا ہے اور اگر ایمبولینس کی ضرورت پڑی تو وہ سپریم کورٹ سے فراہم کی جائے گی۔

بعد ازاں وقفے کے بعد ثمینہ ملک وہیل چیئر پر عدالت میں پیش ہوئیں اور ان کے وکیل نے کہا کہ ایسی شرط کے ساتھ میڈیکل سرٹیفکیٹ جعلی کیسے ہوسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب میڈیکل سرٹیفکیٹ اور دیگر دستاویزات میں نام مختلف ہوں گے تو شک ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ثمینہ کو جب بھی اجلاس کے لیے بلایا جاتا ہے تو وہ اپنی بیماری کا بہانہ بناتی ہیں جس پر وکیل نے کہا کہ ان کی موکلہ صرف ایک اجلاس میں غیر حاضر رہی ہیں لیکن دیگر میں آن لائن شریک ہوئی ہیں۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا ایچ ای سی کا دفتر کسی اور شہر میں ہے کہ انہوں نے آن لائن اجلاس میں شرکت کی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یونیورسٹی میں کتنی اسامیاں ہیں جس پر وکیل نے کہا کہ میں نے وہی سوال پوچھا تھا جو یونیورسٹی بورڈ کے اجلاس میں ایک رکن نے پوچھا تھا اور اس کا جواب وہاں بھی دیا گیا تھا۔

وکیل نے مزید کہا کہ میں آج عدالت میں بھی یہی جواب دوں گا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم خاموش ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ عدالت کے ساتھ بدتمیزی کریں۔

چیف جسٹس کی ہدایت پر سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے وکیل کو زبردستی روسٹرم سے اتار دیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈاکٹر ثمینہ قریبی صحافیوں کے ساتھ کیا کر رہی ہیں؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ انہیں یہاں بلائیں اور جب وہ روسٹرم پر آئیں تو انہوں نے ان سے پوچھا کہ وہ اجلاسوں میں شرکت کیوں نہیں کرتیں۔

ڈاکٹر ثمینہ نے چیف جسٹس کو بتایا کہ اس وقت میں طب کے زیر اثر ہوں، مجھے کچھ وقت دیں اور میں آپ کے تمام سوالات کے جواب ات دوں گی۔

چیف جسٹس نے ثمینہ سے کہا کہ اگر آپ کو صورتحال کو ڈرامائی بنانا ہے تو یہاں سے چلے جائیں جس پر ان کے وکیل نے چیف جسٹس کے بینچ میں ہونے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے بورڈ ممبر کی حیثیت سے اجلاس میں یہ تمام سوالات پوچھے تھے، آپ بھی بورڈ ممبر ہیں، اس لیے مناسب ہوگا کہ آپ اس کیس کی سماعت نہ کریں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس یا ان کا نمائندہ بہت سی یونیورسٹیوں کے بورڈ کا رکن ہوتا ہے، جب معلومات نہیں دینا ہوتی تو ایسے اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ان کے خاندان کے کسی فرد کی ڈگری میں کوئی مسئلہ ہوتا تو وکیل کے اعتراضات درست ہوتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے پروپیگنڈے کے لیے لوگوں کی خدمات حاصل کی ہیں، عدالت اس معاملے کی سماعت کرے گی۔

ثمینہ ملک جب کمرہ عدالت سے نکلیں تو کچھ صحافی بھی کمرہ عدالت سے چلے گئے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب تین چار کرائے کے صحافی جا کر گالیاں دینا شروع کردیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انہوں نے کسی کے کہنے پر ازخود نوٹس لیا اور سوال کیا کہ کیا توہین عدالت کا دوسرا نوٹس لے کر کسی کو جیل بھیجنا چاہیے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پورے پاکستان میں صرف ایک خاتون ہے جو ہر وقت بیمار رہتی ہے، زبانی گالیاں دینے کے لیے میڈیا پر لوگوں کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ آئی آئی یو آئی کے ٹرسٹی بیرونی ممالک سے ہیں اور اگر ریکٹر بیمار ہے اور کام نہیں کرسکتا ہے تو اسے اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہئے۔

سماعت کے دوران ایچ ای سی حکام نے عدالتی رپورٹ پیش کی کہ وفاقی حکومت اسلامی یونیورسٹی کو سب سے زیادہ گرانٹ دیتی ہے۔

عدالت کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ آئی آئی یو آئی کو سالانہ 2.1 ارب روپے سے زائد دیے جاتے ہیں جبکہ سعودی عرب اور کویت سے بھی 60 کروڑ روپے کی گرانٹ ملتی ہے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ یونیورسٹی کا مجموعی خسارہ 4 ارب 17 کروڑ روپے ہے۔

اسی طرح ایک اور عدالتی سوال کے جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئی آئی یو آئی کے نائب صدر محمد سرور کو بورڈ آف گورنرز کی منظوری کے بغیر غیر قانونی طور پر تعینات کیا گیا ہے۔ آئی آئی یو آئی کے شعبہ انسانی وسائل کے ڈائریکٹر عتیق الرحمان نے عدالت کو بتایا کہ محمد سرور کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر دو سال کے لیے پروفیسر مقرر کیا گیا تھا۔ بعد ازاں عدالت نے سرور کی بطور نائب صدر تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے موجودہ ریکٹر ثمینہ ملک کی بحالی یا نہ کرنے کا معاملہ وفاقی حکومت پر چھوڑ دیا اور سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Trending

Exit mobile version