news
جاں بحق حزب اللہ راکین کی تعداد 20ہوگئی، لبنان وزارت صحت
وزارت صحت کے مطابق بیروت کے مضافاتی علاقوں اور وادی بیکا میں واکی ٹا کی دھماکوں میں حزب اللہ کے جان بحق ار کان کی تعداد بڑھ کر 20 کے قریب پہنچ گئی ان دھماکوں کے باعث متاثر ہونے والے 400 سے زائد افراد مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
واکی ٹاکی میں نصب کیا جانے والا دھماکہ خیز مواد اتنا زیادہ طاقتور تھا کہ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں میں آگ لگ گئی اور وہ تباہ ہو گئیں گزشتہ روز بھی ایک دھماکہ حزب اللہ رکن کے جنازے میں ہوا
اسی طرح پیجز پھٹنے سے لبنانی وزیر کے بیٹے سمیت 12 افراد جابحق ہو گئے تھے ان میں دو بچے بھی شامل تھے
پیجز دھماکوں میں ایرانی سفیر مجتبی امانی سمیت 4 ہزار سے زائد افراد زخمی ہیں جبکہ زخمیوں میں 400 کی حالت تشویش ناک ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق کل لبنان میں سب سے زیادہ تباہ کن دھماکے ہوئے اسرائیل کے ساتھ ایک سال پہلے شروع ہونے والی جھڑپوں کے بعد اچانک لبنان کے جنوب میں مختلف علاقوں میں ہاتھوں میں پکڑ کر رابطہ کاری کے لیے استعمال ہونے والے ریڈیو میں اچانک سے دھماکے ہونا شروع ہو گئے۔
اسرائیلی حکام نے ان دھماکوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم سکیورٹی ذرائع کی اطلاع کے مطابق اسرائیل کی جاسوس ایجنسی موساد اس کی ذمہ دار ہے حزب اللہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ یہ واقعہ گروپ کی تاریخ کی سب سے بڑی سکیورٹی کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔
اسرائیل کی فوج کے سربراہ نے حزب اللہ کو دھمکی دی ہے کہ ہمارے پاس بہت سی ایسی صلاحیتیں بھی ہیں جو ابھی ہم نے استعمال نہیں کیں تاہم ہم مرحلہ وار اگے بڑھ رہے ہیں اور ہر مرحلے پر حزب اللہ کو بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔
دوسری جانب اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ نے لبنان دھماکوں پر احتساب کا مطالبہ بھی کر دیا ہے اور اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ کا مزید کہنا ہے کہ شناخت ،جگہ ،حالات جانے بغیر ہزاروں افراد کو دھماکوں کا نشانہ بنانا انتہائی شرمناک ہے
آئی کام جاپانی فرم نے کہا ہے کہ حزب اللہ کے ارکان کے خلاف حملے میں استعمال ہونے والی واکی ٹاکی کم از کم ایک دہائی پرانی ہونی چاہیے، جس کی وجہ سے یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ کس طرح چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے۔
جاپانی فرم آئی کام نے کہا ہے کہ بدھ کے روز لبنان میں عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے خلاف واکی ٹاکی حملے میں استعمال ہونے والے ریڈیو اور بیٹریاں دونوں کنٹرول برآمد اور سیکیورٹی طریقہ کار سے مشروط ہیں۔ ایک ماہر نے کہا کہ یہ حملہ “ریاستی سرپرستی میں ہونا چاہئے۔
آئی سی-وی 82 ایک ہینڈ ہیلڈ ریڈیو ہے جو 2004 سے اکتوبر 2014 تک مشرق وسطی سمیت تیار اور برآمد کیا گیا تھا۔ اسے تقریبا 10 سال پہلے بند کر دیا گیا تھا، اور اس کے بعد سے، یہ ہماری کمپنی سے نہیں بھیجا گیا ہے، “آئی کام نے کہا.
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مین یونٹ کو چلانے کے لیے درکار بیٹریوں کی پیداوار بھی بند کر دی گئی ہے اور جعلی مصنوعات کی شناخت کے لیے ہولوگرام سیل بھی منسلک نہیں کی گئی تھی، اس لیے اس بات کی تصدیق کرنا ممکن نہیں ہے کہ آیا یہ مصنوعات ہماری کمپنی سے بھیجی گئی ہیں یا نہیں۔
آئی کام نے مزید کہا کہ اس کے تمام ریڈیو جاپان میں بنائے گئے ہیں ، اور اس کا برآمدی پروگرام سخت جاپانی سیکیورٹی اور تجارتی کنٹرول قواعد و ضوابط پر مبنی ہے ، جس سے ان سوالات میں اضافہ ہوتا ہے کہ ڈیوائسز کے ساتھ کس طرح چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہے۔