فیشن
ہو رنگ شفق جیسے رُخِ شام میں اُترا
ایک بے نام فیس بُک پوسٹ پڑھی ’’تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو، اگر تم سفر نہیں کرتے
ایک بے نام فیس بُک پوسٹ پڑھی ’’تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو، اگر تم سفر نہیں کرتے۔ اگر تم مطالعہ نہیں کرتے۔ اگر تم زندگی کی آوازوں کو نہیں سُنتے۔ اگر تم خُود کو نہیں سراہتے۔ اگر تم اپنی لگی بندھی زندگی کے غلام بن جاتے ہو۔ اگر تم اپنی روٹین تبدیل نہیں کرتے۔ اگر تم مختلف رنگ نہیں پہنتے یا تم اُن لوگوں سے بات نہیں کرتے، جنہیں تم نہیں جانتے۔ تو….. تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو۔‘‘ اللہ جانے کس کی تحریر ہے، لیکن ہے بہت سچّی اور دِل سے لکھی ہوئی۔ آپ میں سے ہر ایک اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائے، کیا حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ مَر تو سب نے ایک دن جانا ہی ہے۔ موت کا دن تو معیّن ہے، لیکن یہ جو ہم قسطوں میں خودکُشی کرتے ہیں۔ ؎ ’’صُبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے….. عُمر یوں ہی تمام ہوتی ہے۔‘‘ کے مصداق گھڑی کی ٹِک ٹِک کے ساتھ روزانہ ایک جیسے معمولات کے مطابق پوری زندگی بسر کردیتے ہیں، یہ کوئی زندگی تو نہ ہوئی۔