Connect with us

news

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے جرمن وزیر برائے اقتصادی تعاون و ترقی مسزسوینجا شولز کی قیادت میں وفد کی ملاقات

Published

on

ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے پر تبادلہ خیال
موسمیاتی تبدیلی اور تحفظ ماحولیات سے متعلق امور پر گفتگو
تجارت اور سرمایہ کاری میں دوطرفہ تعاون کو مزید گہرا کرنے کے عزم کا اعادہ
وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کا جرمنی کی جانب سے سیلاب زدگان کے لئے 91.1 ملین یورو کی امداد پر اظہار تشکر
کلین انرجی اور کلائمیٹ فرینڈلی پراجیکٹس میں اشتراک کارپر اتفاق
موسمیاتی تبدیلی اورماحولیاتی آلودگی کاخاتمہ ترجیحات میں شامل ہیں۔
،پہلی مرتبہ ماحولیات کیلئے بجٹ میں 400فیصد اضافہ کیا ۔سموگ اوردیگر ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کیلئے ضروری اقداما ت کیے جارہے ہیں ۔
وزیر اعلیٰ نے پائیدار انرجی کیلئے پاکستان کو 24 ملین یورو فراہم کرنے کے اقدام کو قابل تحسین قرار دیا
جی ایس پی پلس سٹیٹس کے حصول کیلئے جرمنی کی معاونت کو سراہتے ہیں۔
پاکستان اور جرمنی کے درمیان دیرینہ تاریخی تعلقات کئی دہائیوں پر محیط ہیں۔ پاک جرمن معاشی تعلقات دن بدن بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ٹیکسٹائل سمیت دیگر شعبوں میں متعدد جرمن کمپنیاں اشتراک کار قابل تحسین امر ہے۔ملکی ترقی میں خواتین کے معاشی کردار کو بتدریج بڑھانے کیلئے پرعزم ہیں۔مریم نوازشریف

پلگ اینڈ پلے ٹیکسٹائل یونٹس اور گارمنٹس سٹی پراجیکٹس سے خواتین کی معاشی خود محتاری بڑھے گی۔سکلڈ خواتین گارمنٹس انڈسٹری میں شاندار روزگار حاصل کر سکیں گیں۔قائداعظم بزنس پارک کے ووکیشنل ٹریننگ سنٹر میں خواتین کو ٹریننگ کیساتھ ساتھ سکالر شپ بھی دیا جائے گا۔ تمام شعبوں میں خواتین کو بااختیار بنانے کی اہمیت پر بھی زور دے رہے ہیں۔

پنجاب کی تمام انڈسٹریز میں ورکرز سیفٹی اوران کے معاشی اور سماجی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جارہا ہے۔پنجاب کے سرکاری سکولوں کے طلبہ کی غذائی قلت دور کرنے کیلئے سکول میل(School Meal) پروگرام شروع کررہے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف نے پنجاب میں تعلیم اورصحت کے شعبوں میں ریفارمز سے بھی آگاہ کیا۔
انڈسٹری اورسکلڈ لیبر کے پوٹینشل ہونے کی وجہ سے پنجاب قابل ترجیح صوبہ ہے۔پارلیمنٹ،سرکاری دفاتر اوردیگر شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کی موجودگی اورشراکت قابل تحسین ہے۔

جرمن وزیرمسز سوینجا شولزنے وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف کا شکریہ ادا کیا اور گارمنٹس سٹی پراجیکٹ کو سراہا-

پاکستان میں جرمنی کے سفیر الفرڈ گینتھرگراناس،سینئرپالیسی آفیسر انٹونیا فیلیسیٹاس پیٹرز،جرمن پارلیمنٹ کے ارکان کانٹ گیرس چاؤ، جرگن کرٹز بھی وفد میں شامل،

چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان اور ایڈیشنل سیکرٹری سارہ حیات بھی موجود تھیں

news

اقتصادی ترقی سرمایہ کاری اور مقروض کے تحفظ کے لیے ملک میں موثر و مضبوط دیوالیہ نظام کا قیام

Published

on

محمد اورنگزیب

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے حکومت کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ سرمایہ کاری، اقتصادی ترقی اور قرض دہندگان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک مؤثر اور مضبوط دیوالیہ نظام کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے جمعہ کو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے زیر اہتمام دیوالیہ اور قرضوں کی وصولی پر اسٹیک ہولڈرز کے مشاورتی اجلاس سے خطاب کے دوران کہا کہ “اب کرنسی کا تعین مارکیٹ کی قوتوں کے ذریعے ہی ہوگا۔ کوئی یہ فیصلہ نہیں کرے گا کہ ملک کہاں ہونا چاہیے ایسا وقت گزر چکا ہے۔

کانفرنس میں بین الاقوامی مندوبین، تمام ہائی کورٹس کے ججز، وکلاء، ریگولیٹرز اور پالیسی میکرز نے شرکت کی۔

وفاقی وزیر نے معاشی استحکام اور قرضوں کے حل کے بہتر فریم ورک کے لئے اس کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔ اورنگ زیب نے سازگار کاروباری ماحول پیدا کرنے کے لئے حکومت کے عزم پر بھر پور زور دیا۔

انہوں نے ورکنگ گروپ تشکیل دینے کے خیال سے اتفاق کیا لیکن اس بات پر بھی زور دیا کہ نجی شعبے کو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پیشرفت کو آگے لے جایا جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نجی شعبے کو ملک کی قیادت کرنی ہوگی اور حکومت پالیسی فریم ورک اور پالیسی کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے ہر لمحہ موجود ہے۔

دیوالیہ اور منظم قرضوں کے حل کے فریم ورک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے یہ کہا کہ یہ فریم ورک ایک معاون ماحول فراہم کرے گا، جہاں قرضوں تک رسائی اور مالی وسائل کے حصول کو آسان بنایا جائے گا، اور ساتھ ہی اگر کوئی مشکل میں پڑ جائے تو اسے منظم طریقے سے بچانے کا نظام بھی فراہم کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ میری تمام بینکاری ماہرین سے درخواست ہے کہ ہماری اولین کوشش کاروبار کی بحالی پر ہی ہونی چاہیے۔ ادائیگی کی خواہش اور ادائیگی کی صلاحیت کے درمیان فرق کرنا بہت ہی ضروری ہے۔“

انہوں نے کہا کہ اگر مسئلہ ادائیگی کی خواہش کا ہو توپھر یہ ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن اگر ”ادائیگی کی صلاحیت“ کا مسئلہ ہو تو بینکاری ماہرین کو چاہیے کہ مینجمنٹ اور اسپانسرز کے ساتھ مل کر ایسا حل تلاش کرلیں جو انہیں عدالتوں یا دیگر پیچیدہ مراحل میں دھکیلنے کے بجائے بحالی کے عمل میں مدد فراہم کرے۔ بورڈ اور مینجمنٹ کو ایسے معاملات میں فیصلہ کرنا چاہیے کہ اگر ادائیگی کی صلاحیت موجود ہے اور اگلے دو سے تین سالوں میں بحالی ممکن ہو تو انہیں ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جو بحالی کے امکانات کو ختم کریں۔

جاری رکھیں

news

دس جنوری سے 30 ماہ کی پابندی کے بعد یورپ کے لیے پی آئی اے پروازوں کا آغاز

Published

on

پی آئی اے

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی ایوی ایشن ریگولیٹر کی طرف سے پابندی ختم کیے جانے کے بعد یورپ کے لیے اس کی پروازیں جنوری سے بحال کی جائیں گی اور اس کا آغاز پیرس سے ہوگا۔

پی آئی اے کو یورپی یونین میں آپریشن کی اجازت جون 2020 میں اس خدشے کے پیشِ نظر معطل کر دی گئی تھی کہ پاکستانی حکام اور سول ایوی ایشن اتھارٹی بین الاقوامی ایوی ایشن معیارات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے میں ناکام ہو سکتی ہے۔

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان کا کہنا ہے کہ ہم نے پہلی پرواز کے شیڈول کے لیے منظوری حاصل لے لی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایئرلائن 9 دسمبر کو منصوبہ بندی کے مطابق 10 جنوری کی پرواز کے لیے بکنگ شروع کرے گی جو بوئنگ 777 کے ذریعے پیرس روانہ ہوگی۔

یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی اور برطانیہ نے پی آئی اے کی خطے میں پروازوں کی اجازت اس وقت معطل کی تھی جب پاکستان نے طیارہ حادثے کے بعد پائلٹس کے لائسنس کی قانونی حیثیت سے متعلق اسکینڈل کی تحقیقات شروع کی گئی تھیں۔

عبداللہ حفیظ خان نے کہا کہ پی آئی اے بہت جلد برطانیہ کے لئے روٹس بحال کرنے کی اجازت سے متعلق برطانیہ کے محکمہ ٹرانسپورٹ (ڈی ایف ٹی) سے رابطہ کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈی ایف ٹی کی منظوری کے بعد لندن، مانچسٹر اور برمنگھم سب سے زیادہ ڈیمانڈ کے مقامات ہوں گے۔

اس پابندی کے باعث خسارے میں چلنے والی ایئر لائن کو سالانہ 40 ارب روپے (144 ملین ڈالر) کا نقصان اٹھانا پڑا۔

پی آئی اے کے پاس پاکستان کی مقامی ایوی ایشن مارکیٹ کے 23 فیصد شیئرز ہیں لیکن اس کے 34 طیاروں پر مشتمل بیڑا انٹرنیشنل ایئرلائنز سے مطابقت نہیں کرسکتا جن کے پاس 60 فیصد شیئرز موجود ہیں کیوں کہ 87 ممالک کے ساتھ معاہدوں اور لینڈنگ سلاٹس کے معاہدے کے باوجود قومی ایئرلائن کے پاس براہ راست بین الاقوامی پروازوں کی کافی کمی ہے۔

پاکستان کی طرف سے پی آئی اے کی نجکاری کی کوششیں اس وقت ناکام ہوگئی تھیں جب اسے صرف ایک پیشکش موصول ہوئی جو اس کی طلب کردہ قدر سے کافی کم تھی

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~