Connect with us

news

پاکستان نے امریکہ کو بحیرہ عرب میں پسنی میں نئی بندرگاہ بنانے کی پیشکش کی

Published

on

پاکستان

پاکستان نے امریکہ کو بحیرہ عرب میں پسنی میں ایک نئی بندرگاہ بنانے کی پیشکش کی ہے جو واشنگٹن کو جنوبی ایشیا کے حساس ترین علاقوں تک سٹریٹجک رسائی فراہم کر سکتی ہے۔ اس تجویز کے مطابق، امریکی سرمایہ کار پسنی کی بندرگاہ کو ایک ٹرمینل میں تبدیل کریں گے جہاں سے اہم معدنیات جیسے تانبہ اور اینٹیمونی کی نقل و حمل کی جائے گی۔

پسنی ایران سے تقریباً 100 میل اور چین کی حمایت یافتہ گوادر بندرگاہ سے 70 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ پیشکش ایسے وقت سامنے آئی ہے جب وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ستمبر میں وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے ملاقات کی تھی اور امریکی سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق یہ 1.2 ارب ڈالر کا منصوبہ پاکستانی وفاقی وسائل اور امریکی تعاون سے مالی امداد حاصل کرے گا، تاہم فی الحال یہ سرکاری پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔ اس منصوبے میں ایک نئی ریلوے لائن کے ذریعے معدنیات کی کانوں سے پسنی بندرگاہ کو منسلک کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔

یہ بندرگاہ کسی فوجی اڈے کے طور پر کام نہیں کرے گی، بلکہ یہ پاکستان کی جنوبی ایشیا میں جغرافیائی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے تاکہ چین سے تعلقات میں توازن لایا جا سکے اور امریکہ، ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے جائیں۔

پسنی کی بندرگاہ ایران اور وسطی ایشیا کے قریب ہونے کے باعث امریکہ کے لیے تجارت اور سلامتی کے نئے مواقع فراہم کرے گی اور بحیرہ عرب میں امریکی اثر و رسوخ کو بڑھانے میں مدد دے گی۔ یہ منصوبہ پاکستان کے معدنیات کے شعبے میں امریکی دلچسپی کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے، جہاں حال ہی میں امریکی کمپنی نے کراچی اور گوادر کے قریب ریفائننگ کی سہولیات کے قیام کے لیے معاہدے کیے ہیں۔

پاکستان نے ستمبر میں اہم معدنیات کا پہلا کنسائمنٹ امریکہ کو بھیجا ہے، اور امریکی کمپنی USSM نے پاکستان میں ریفائنری قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ اس کمپنی نے پسنی کے قریب بندرگاہ منصوبے کی افادیت کو تسلیم کیا ہے، کیونکہ یہاں قدرتی گہرے پانی کی بندرگاہ موجود ہے اور اسے ریلوے لائن کے ذریعے ریکوڈک کے معدنیاتی منصوبے سے جوڑا جا سکتا ہے، جو اس علاقے کو سرمایہ کاری کے لیے بہت مناسب بناتا ہے۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

کینیڈا میں پاکستانی ٹیکسٹائل کا چرچا: ATS شو 2025ء میں خریداروں کی بھرپور توجہ

Published

on

By

کینیڈا

کینیڈا کے شہر مسّی ساگا میں 29 ستمبر سے یکم اکتوبر 2025ء تک جاری رہنے والے “اپیرل ٹیکسٹائل سورسنگ (ATS) شو” میں پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت نے شاندار شرکت کی۔ اس بین الاقوامی تجارتی میلے میں پاکستان سمیت چین، بنگلا دیش، ویتنام اور کینیڈا کے نمائندوں نے حصہ لیا، جس نے اس نمائش کو عالمی سورسنگ اور صنعت سے جڑے ماہرین کے لیے ایک نمایاں پلیٹ فارم بنا دیا۔

پاکستانی نمائش کنندگان نے اعلیٰ معیار کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات پیش کیں، جن میں اسپورٹس ویئر، ٹیکنیکل ٹیکسٹائلز اور حفاظتی ملبوسات شامل تھے۔ یہ نمائش پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت میں مہارت، پائیداری اور ہائی پرفارمنس مصنوعات کی ترقی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔

شرکاء نے بتایا کہ اس سال کا رسپانس سابقہ برسوں کی نسبت خاصا بہتر رہا، اور متعدد خریداروں و صنعت کاروں سے مثبت تجارتی روابط قائم ہوئے۔ اس موقع پر شمالی امریکا میں ابھرتے ہوئے رجحانات، خاص طور پر ماحول دوست ٹیکسٹائل کی بڑھتی ہوئی مانگ سے متعلق قیمتی معلومات بھی حاصل کی گئیں، جو آئندہ تجارتی حکمتِ عملی کے لیے معاون ثابت ہوں گی۔

جاری رکھیں

news

سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم پر سماعت کا آغاز

Published

on

By

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر باقاعدہ سماعت کا آغاز ہو چکا ہے، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین کر رہے ہیں۔ آٹھ رکنی آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔ دورانِ سماعت جسٹس امین نے واضح کیا کہ عدالت آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرے گی اور جب تک آئینی ترمیم واپس نہیں لی جاتی، عدالت کو موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ چونکہ عدالت نے 26ویں آئینی ترمیم کو معطل نہیں کیا، اس لیے اسے فی الحال آئین کا حصہ تصور کیا جائے گا۔ درخواست گزار وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم پارلیمنٹ سے غیر معمولی انداز میں، رات کے وقت منظور کرائی گئی، اور سپریم کورٹ کے تمام ججز کو بینچ کا حصہ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کی ساخت متاثر ہوئی ہے، اور ججز کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جس سے عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست اثر پڑا ہے۔

عدالتی بینچ نے وکیل سے آئینی بینچ کے اختیارات پر دلائل طلب کیے اور یہ سوال اٹھایا کہ عدالت کس اختیار کے تحت فل کورٹ تشکیل دے سکتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے نشاندہی کی کہ جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں ہے، اور اگر عام مقدمات میں فل کورٹ تشکیل دی جا سکتی ہے تو اس حساس آئینی معاملے میں کیوں نہیں؟

جاری رکھیں

Trending

Copyright © 2024 Sahafat Group of Publications . Powered by NTD.

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~