Connect with us

news

قومی اسمبلی میں گریڈ 1 سے 19 تک کی درجنوں آسامیاں ختم ،مقصد سالانہ ایک ارب روپے کی بچت کرنا ہے

Published

on

کفایت شعاری کے ان اقدامات کے ایک حصے کے طور پر، اسپیکر نے گریڈ 1 سے 19 تک کی 220 غیر ضروری آسامیوں کو ختم کیا، جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو 563 ملین روپے سے زائد کی سالانہ بچت ہوئی۔

اس سے قبل انتظامی اصلاحات کے تین مراحل میں سے دو کو کامیابی کے ساتھ نافذ کیا گیا تھا۔ فیز ایک میں، مختلف گریڈز میں 90 غیر ضروری آسامیوں کو ختم کر دیا گیا، اس کے بعد فیز دو میں 130 اضافی پوسٹیں ختم کر دی گئیں۔ فیز تین سے 400 ملین روپے کی مزید بچتیں متوقع ہیں۔ ان پالیسی اقدامات کی منظوری قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی فنانس کمیٹی کے اجلاس میں دی گئی ۔

جس کی صدارت ایاز صادق نے کی۔ ان فیصلوں میں کفایت شعاری کے منصوبے پر عمل درآمد، NA سیکرٹریٹ کی ضروریات کو معقول بنانا، اور عملے کے تعین، خاتمے، تقرری اور ترقی کے طریقہ کار میں بہتری، شفافیت اور جوابدہی پر زور دینے کے ساتھ شامل ہیں۔

کمیٹی نے سیکرٹریٹ میں مزید بھرتیوں کو روکنے کا بھی فیصلہ کیا جب تک کہ دوسری صورت میں ہدایت نہ کی جائے اور نیشنل اسمبلی سیکرٹریٹ ایمپلائز ایکٹ 2018 کا جائزہ لینے کے لیے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ اسے سول سرونٹس ایکٹ 1973 کے ساتھ مزید ہم آہنگ کیا جا سکے۔ عملے کی سطح کا تعین کرنے اور ترقیوں اور تقرریوں کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے نیشنل اسمبلی ایمپلائز ایکٹ 2018۔

اجلاس کو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے تمام متعلقہ محکموں کے نمائندوں پر مشتمل ’’ٹکٹنگ اینڈ لاجنگ کمیٹی‘‘ کے قیام کے بارے میں بھی بتایا گیا تاکہ کام کی انجام دہی میں شفافیت کو بڑھایا جا سکے۔

یہ کمیٹی عملے اور افسران کے کردار کی مزید واضح طور پر وضاحت کرے گی اور وسائل کے استعمال کو بہتر بنانے کے لیے ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے میں مدد کرے گی۔

مزید برآں، اجلاس کو این اے سیکرٹریٹ کی ڈیجیٹلائزیشن کے بارے میں اپ ڈیٹ کیا گیا، پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کی ایک ٹیم پہلے سے ہی اس منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ سپیکر نے پارلیمنٹ لاجز میں اضافی بلاکس کی بروقت تعمیر کی بھی ہدایت کی۔

news

اقتصادی ترقی سرمایہ کاری اور مقروض کے تحفظ کے لیے ملک میں موثر و مضبوط دیوالیہ نظام کا قیام

Published

on

محمد اورنگزیب

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے حکومت کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ سرمایہ کاری، اقتصادی ترقی اور قرض دہندگان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک مؤثر اور مضبوط دیوالیہ نظام کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے جمعہ کو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے زیر اہتمام دیوالیہ اور قرضوں کی وصولی پر اسٹیک ہولڈرز کے مشاورتی اجلاس سے خطاب کے دوران کہا کہ “اب کرنسی کا تعین مارکیٹ کی قوتوں کے ذریعے ہی ہوگا۔ کوئی یہ فیصلہ نہیں کرے گا کہ ملک کہاں ہونا چاہیے ایسا وقت گزر چکا ہے۔

کانفرنس میں بین الاقوامی مندوبین، تمام ہائی کورٹس کے ججز، وکلاء، ریگولیٹرز اور پالیسی میکرز نے شرکت کی۔

وفاقی وزیر نے معاشی استحکام اور قرضوں کے حل کے بہتر فریم ورک کے لئے اس کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔ اورنگ زیب نے سازگار کاروباری ماحول پیدا کرنے کے لئے حکومت کے عزم پر بھر پور زور دیا۔

انہوں نے ورکنگ گروپ تشکیل دینے کے خیال سے اتفاق کیا لیکن اس بات پر بھی زور دیا کہ نجی شعبے کو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پیشرفت کو آگے لے جایا جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نجی شعبے کو ملک کی قیادت کرنی ہوگی اور حکومت پالیسی فریم ورک اور پالیسی کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے ہر لمحہ موجود ہے۔

دیوالیہ اور منظم قرضوں کے حل کے فریم ورک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے یہ کہا کہ یہ فریم ورک ایک معاون ماحول فراہم کرے گا، جہاں قرضوں تک رسائی اور مالی وسائل کے حصول کو آسان بنایا جائے گا، اور ساتھ ہی اگر کوئی مشکل میں پڑ جائے تو اسے منظم طریقے سے بچانے کا نظام بھی فراہم کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ میری تمام بینکاری ماہرین سے درخواست ہے کہ ہماری اولین کوشش کاروبار کی بحالی پر ہی ہونی چاہیے۔ ادائیگی کی خواہش اور ادائیگی کی صلاحیت کے درمیان فرق کرنا بہت ہی ضروری ہے۔“

انہوں نے کہا کہ اگر مسئلہ ادائیگی کی خواہش کا ہو توپھر یہ ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن اگر ”ادائیگی کی صلاحیت“ کا مسئلہ ہو تو بینکاری ماہرین کو چاہیے کہ مینجمنٹ اور اسپانسرز کے ساتھ مل کر ایسا حل تلاش کرلیں جو انہیں عدالتوں یا دیگر پیچیدہ مراحل میں دھکیلنے کے بجائے بحالی کے عمل میں مدد فراہم کرے۔ بورڈ اور مینجمنٹ کو ایسے معاملات میں فیصلہ کرنا چاہیے کہ اگر ادائیگی کی صلاحیت موجود ہے اور اگلے دو سے تین سالوں میں بحالی ممکن ہو تو انہیں ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جو بحالی کے امکانات کو ختم کریں۔

جاری رکھیں

news

دس جنوری سے 30 ماہ کی پابندی کے بعد یورپ کے لیے پی آئی اے پروازوں کا آغاز

Published

on

پی آئی اے

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی ایوی ایشن ریگولیٹر کی طرف سے پابندی ختم کیے جانے کے بعد یورپ کے لیے اس کی پروازیں جنوری سے بحال کی جائیں گی اور اس کا آغاز پیرس سے ہوگا۔

پی آئی اے کو یورپی یونین میں آپریشن کی اجازت جون 2020 میں اس خدشے کے پیشِ نظر معطل کر دی گئی تھی کہ پاکستانی حکام اور سول ایوی ایشن اتھارٹی بین الاقوامی ایوی ایشن معیارات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے میں ناکام ہو سکتی ہے۔

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان کا کہنا ہے کہ ہم نے پہلی پرواز کے شیڈول کے لیے منظوری حاصل لے لی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایئرلائن 9 دسمبر کو منصوبہ بندی کے مطابق 10 جنوری کی پرواز کے لیے بکنگ شروع کرے گی جو بوئنگ 777 کے ذریعے پیرس روانہ ہوگی۔

یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی اور برطانیہ نے پی آئی اے کی خطے میں پروازوں کی اجازت اس وقت معطل کی تھی جب پاکستان نے طیارہ حادثے کے بعد پائلٹس کے لائسنس کی قانونی حیثیت سے متعلق اسکینڈل کی تحقیقات شروع کی گئی تھیں۔

عبداللہ حفیظ خان نے کہا کہ پی آئی اے بہت جلد برطانیہ کے لئے روٹس بحال کرنے کی اجازت سے متعلق برطانیہ کے محکمہ ٹرانسپورٹ (ڈی ایف ٹی) سے رابطہ کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈی ایف ٹی کی منظوری کے بعد لندن، مانچسٹر اور برمنگھم سب سے زیادہ ڈیمانڈ کے مقامات ہوں گے۔

اس پابندی کے باعث خسارے میں چلنے والی ایئر لائن کو سالانہ 40 ارب روپے (144 ملین ڈالر) کا نقصان اٹھانا پڑا۔

پی آئی اے کے پاس پاکستان کی مقامی ایوی ایشن مارکیٹ کے 23 فیصد شیئرز ہیں لیکن اس کے 34 طیاروں پر مشتمل بیڑا انٹرنیشنل ایئرلائنز سے مطابقت نہیں کرسکتا جن کے پاس 60 فیصد شیئرز موجود ہیں کیوں کہ 87 ممالک کے ساتھ معاہدوں اور لینڈنگ سلاٹس کے معاہدے کے باوجود قومی ایئرلائن کے پاس براہ راست بین الاقوامی پروازوں کی کافی کمی ہے۔

پاکستان کی طرف سے پی آئی اے کی نجکاری کی کوششیں اس وقت ناکام ہوگئی تھیں جب اسے صرف ایک پیشکش موصول ہوئی جو اس کی طلب کردہ قدر سے کافی کم تھی

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~