Connect with us

news

کوسموس 482: سوویت اسپیس کرافٹ 10 مئی کو زمین پر گرنے کا خدشہ

Published

on

کوسموس 482

دنیا کو ایک غیر متوقع خلائی واقعے کا سامنا ہے، کیونکہ سوویت یونین کی جانب سے 1972 میں لانچ کیا گیا اسپیس کرافٹ “کوسموس 482 10 مئی کے آس پاس زمین پر گرنے والا ہے۔ سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ کسی کو معلوم نہیں کہ یہ زمین پر کہاں گرے گا۔

یہ مشن دراصل سیارہ زہرہ (وینس) کی جانب بھیجا گیا تھا، لیکن راکٹ بوسٹر کے اوپری مرحلے میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے خلائی جہاز اپنی منزل تک پہنچنے میں ناکام رہا اور زمین کے گرد مدار میں پھنس گیا۔

نیدرلینڈ کی ڈیلفٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی کے لیکچرر مارکو لینگ بروک نے کوسموس 482 کی زمین پر واپسی کا سراغ لگایا۔ ان کے مطابق، چونکہ یہ اسپیس کرافٹ ایک لینڈر (Lander) ہے، اور اسے زہرہ کے سخت ماحول سے گزرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا، اس لیے یہ زمین کے ماحول میں دوبارہ داخل ہونے کے باوجود مکمل تباہ نہ ہو، بلکہ زمین پر کسی مقام پر اثر کے ساتھ گرے۔

لینگ بروک نے کہا کہ اگرچہ یہ خطرہ بہت زیادہ نہیں ہے، لیکن بالکل بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ واقعہ کسی شہابِ ثاقب کے زمین سے ٹکرانے جیسا منظر پیش کر سکتا ہے۔

اسی دوران، سیٹلائٹ ٹریکر رالف وینڈیبرگ نے کوسموس 482 کی تازہ ترین تصاویر حاصل کی ہیں جو زمین کے مدار میں اس کی موجودگی کی تصدیق کرتی ہیں۔

یہ واقعہ عالمی خلائی تحقیق اور سلامتی کے شعبے میں ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ خلائی کچرے یا ناکام مشنز کے ممکنہ زمینی اثرات کس قدر سنجیدہ نوعیت اختیار کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

سائنسدانوں کا کارنامہ: 1 سینٹی میٹر سے چھوٹا اُڑنے والا وائرلیس روبوٹ تیار

Published

on

سائنسدانوں کا کارنامہ

سائنسدانوں کا کارنامہ،سائنسدانوں نے شہد کی مکھی سے متاثر ہو کر ایک حیران کن ایجاد کی ہے، جس کے تحت انہوں نے ایک ایسا وائرلیس اُڑنے والا روبوٹ تیار کر لیا ہے جس کا سائز صرف 1 سینٹی میٹر سے بھی کم ہے۔ یہ چھوٹا سا روبوٹ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے میں تیار کیا گیا ہے اور اس کا وزن صرف 21 ملی گرام ہے۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ روبوٹ ہوائی جہاز کے پنکھے یا ایک چھوٹے ہیلی کاپٹر جیسا دکھائی دیتا ہے اور اسے بغیر کسی تار کے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس میں پرزے نصب کرنا سائنسدانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا جسے برکلے کی ٹیم نے کامیابی سے مکمل کیا۔

یونیورسٹی کے مکینیکل انجینئرنگ کے سائنسدانوں کا کارنامہ پروفیسر لیوی لین کے مطابق یہ روبوٹ نہ صرف اُڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ ہوا میں معلق رہ سکتا ہے، اپنی سمت بھی تبدیل کر سکتا ہے اور چھوٹے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے، جو اس سائز کے کسی بھی دوسرے روبوٹ میں ممکن نہیں۔ روبوٹ کی پرواز کے لیے ایک بیٹری استعمال کی جاتی ہے اور اس کی رہنمائی ایک بیرونی مقناطیسی (میگنیٹک) فیلڈ کے ذریعے کی جاتی ہے، جو اس کی پرواز کو کنٹرول میں رکھتی ہے۔ یہ چھوٹا لیکن غیر معمولی روبوٹ جدید ٹیکنالوجی میں ایک اہم سنگِ میل تصور کیا جا رہا ہے

جاری رکھیں

news

جیفری ہنٹن، مصنوعی ذہانت انسانوں کیلئے خطرہ بن سکتی ہے

Published

on

جیفری ہنٹن

مصنوعی ذہانت کے شعبے کے بانیوں میں شمار ہونے والے اور “اے آئی کے گاڈ فادر” کے طور پر جانے جانے والے معروف کمپیوٹر سائنسدان جیفری ہنٹن نے مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ 10 سے 20 فیصد امکانات موجود ہیں کہ اے آئی مستقبل میں انسانوں کی جگہ لے سکتی ہے یا ان پر حاوی ہو سکتی ہے۔ جیفری ہنٹن، جو گوگل کے سابق نائب صدر رہ چکے ہیں اور جنہیں 2018ء میں کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں اعلیٰ ترین ٹرننگ ایوارڈ سے نوازا گیا، نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر اس ٹیکنالوجی کے خطرات کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اے آئی دو پہلوؤں سے خطرناک ہو سکتی ہے: ایک جانب یہ غلط اور جھوٹی معلومات کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن چکی ہے، جعلی ویڈیوز، تصاویر اور آوازیں بنانا اب نہایت آسان ہو گیا ہے، جو کہ فریب، اسکیمز اور عوامی دھوکا دہی جیسے جرائم کو بڑھا رہا ہے؛ دوسری جانب اس میں وہ صلاحیت بھی موجود ہے کہ اگر اس پر مناسب کنٹرول نہ رکھا گیا تو یہ انسانوں کے لیے وجودی خطرہ بن سکتی ہے۔ ہنٹن کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ اگر ذہین سائنسدان اس پر تحقیق جاری رکھیں تو ہم کوئی ایسا طریقہ تلاش کر سکتے ہیں جس سے اے آئی کو محفوظ رکھا جا سکے۔

جیفری ہنٹن نے دنیا کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے، جن میں حکومتوں کی جانب سے سخت ضوابط، مصنوعی ذہانت سے لیس فوجی روبوٹس پر عالمی سطح پر پابندی اور اس شعبے میں مزید تحقیق شامل ہے تاکہ اس تیزی سے ترقی کرتی ٹیکنالوجی کے ممکنہ خطرات کو روکا جا سکے۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~