Connect with us

news

بھارت میں ماہرہ، ہانیہ اور سجل سمیت پاکستانی فنکاروں کے اکاؤنٹس بلاک

Published

on

ہانیہ عامر

کراچی: بھارت میں متعدد پاکستانی فنکاروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کردیے گئے ہیں، بوکھلاہٹ کا شکار بھارتی حکومت نے پاکستانی یوٹیوبرز اور نیوز چینلز کے یوٹیوب اکاؤنٹس بند کرنے کے بعد اب پاکستانی اداکاروں کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے، بھارت کی جانب سے مواد کی نگرانی سے متعلق قانونی درخواست کے تحت انسٹاگرام نے کئی معروف پاکستانی اداکاروں اور انفلوئنسرز کے اکاؤنٹس تک بھارتی صارفین کی رسائی محدود کردی ہے، جن فنکاروں کے اکاؤنٹس بھارت میں بلاک کیے گئے ان میں اداکارہ ماہرہ خان، ہانیہ عامر، سجل علی، اور گلوکار و اداکار علی ظفر سمیت دیگر شامل ہیں، بھارتی صارفین کو ان اکاؤنٹس تک رسائی کی کوشش کے دوران یہ پیغام موصول ہو رہا ہے کہ “اکاؤنٹ بھارت میں دستیاب نہیں اور اسے محدود کرنے کی ایک قانونی درخواست پر عمل کیا گیا ہے”، اس سے قبل بھارت نے وزارت اطلاعات و نشریات سمیت پاکستان کے 16 یوٹیوب چینلز کو بلاک کیا تھا جن میں میڈیا اداروں کے علاوہ سابق کرکٹرز شعیب اختر، باسط علی اور راشد لطیف سمیت دیگر انفرادی تخلیق کار بھی شامل تھے، ذرائع کے مطابق بھارت نے یہ اقدام قومی سلامتی کے نام پر کیا ہے جبکہ پاکستانی میڈیا نے اسے آزادی اظہار رائے پر پابندی قرار دیا ہے، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پاکستانی مواد کو مسلسل بلاک کیے جانے کے رجحان پر شدید تنقید بھی کی جا رہی ہے۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آئی کو یقین دہانی کرادی

Published

on

مولانا فضل الرحمان


جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پاکستان تحریک انصاف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کی جماعت خیبرپختونخوا حکومت کے خلاف کسی تحریک عدم اعتماد کا حصہ نہیں بنے گی۔ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے مولانا فضل الرحمان سے خصوصی ملاقات کی تھی جس میں صوبے میں سیاسی صورتحال پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔ اس موقع پر مولانا فضل الرحمان نے واضح الفاظ میں کہا کہ ان کی جماعت کو نہ صوبائی حکومت گرانے میں دلچسپی ہے اور نہ ہی اسے بچانے میں، بلکہ وفاق یا صوبے میں اقتدار حاصل کرنا ان کی ترجیح نہیں ہے۔ انہوں نے خیبرپختونخوا حکومت پر ناکامی، بد انتظامی، کرپشن اور امن و امان کی خراب صورتحال کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ ان حالات میں خود تحریک انصاف کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ حکومت کو جاری رکھنا مناسب ہے یا نہیں۔

ذرائع کے مطابق مولانا کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ جے یو آئی (ف) کسی بھی اپوزیشن کی سازش کا حصہ نہیں بنے گی جو کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت گرانے کے لیے ہو۔ واضح رہے کہ مخصوص نشستوں سے متعلق عدالتی فیصلوں اور سیاسی کشیدگی کے بعد ایسی اطلاعات سامنے آ رہی تھیں کہ صوبائی حکومت کو گرانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جس کے پیش نظر پی ٹی آئی نے مولانا فضل الرحمان سے رابطہ کیا اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ ایسے کسی عمل کا حصہ نہ بنیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے بھی اس حوالے سے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ حکومت گرانے کی ایک منظم سازش جاری تھی، لیکن ان کے پاس اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اختیار موجود ہے اور وہ کسی بھی وقت یہ قدم اٹھا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاق کی جانب سے خیبرپختونخوا میں مالی ایمرجنسی نافذ کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ سب عمران خان کو جیل میں رکھنے اور پی ٹی آئی کا مینڈیٹ چوری کرنے کے بعد ہوا۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے عوام نے اپنے مینڈیٹ کی حفاظت کی ہے اور وہ تمام اداروں کو واضح پیغام دے رہے ہیں کہ حکومت کو غیر آئینی طریقے سے ختم کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔

جاری رکھیں

news

جسٹس منصور علی شاہ کا جوڈیشل کمیشن کو خط

Published

on

جسٹس منصور علی شاہ


سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے جوڈیشل کمیشن کو ایک اہم قانونی نکتہ اٹھاتے ہوئے خط ارسال کیا ہے جس میں انہوں نے ججز کی سنیارٹی کے تعین کے عمل پر گہرے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ خط انہوں نے جوڈیشل کمیشن کے حالیہ اجلاس سے ایک روز قبل تحریر کیا تھا۔ خط کے مندرجات میں جسٹس منصور علی شاہ نے مؤقف اپنایا کہ ججز کی سنیارٹی جیسے اہم اور حساس معاملے پر کسی قسم کی مشاورت نہ کرنا آئینی تقاضوں کے خلاف ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت صدرِ مملکت چیف جسٹس سے مشاورت کے پابند تھے، مگر اس معاملے میں مشاورت کے بجائے جلد بازی میں یکطرفہ فیصلہ کر لیا گیا، حالانکہ ججز کی سنیارٹی کا معاملہ پہلے ہی انٹرا کورٹ اپیل میں زیر سماعت ہے، اس لیے اس پر کسی بھی فیصلے سے قبل باقاعدہ مشاورت ضروری تھی۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ جسٹس منصور علی نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کی کارروائی پر بھی اعتراض اٹھایا اور اجلاس کے دوران انہوں نے مؤقف اپنایا کہ 26ویں آئینی ترمیم پر فیصلہ پہلے ہونا چاہیے۔ جسٹس منیب اختر نے بھی ان کے اس مؤقف سے اتفاق کیا، جب کہ تحریک انصاف کے دو ممبران اور خیبرپختونخوا کے وزیر قانون نے بھی جسٹس منصور علی شاہ کی رائے کی حمایت کی۔ یہ معاملہ نہ صرف آئینی اور قانونی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں پر شفافیت اور مشاورت کے اصولوں کے تناظر میں بھی قابل غور ہے۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~