Connect with us

news

واٹس ایپ پر میٹا کے اے آئی اسسٹنٹ فیچر سے صارفین کی تشویش

Published

on

میٹا اے آئی

واٹس ایپ پر میٹا کی جانب سے متعارف کرایا گیا نیا اے آئی اسسٹنٹ فیچر صارفین کے لیے پریشانی کا باعث بن گیا ہے۔ عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق خاص طور پر یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے متعدد صارفین نے شکایت کی ہے کہ وہ اس فیچر کو اپنی مرضی سے غیر فعال یا ہٹا نہیں سکتے، جس سے ان کے ڈیجیٹل خودمختاری کے حق پر سوال اٹھ رہے ہیں۔

واٹس ایپ کے چیٹ انٹرفیس میں ایک مستقل نیلے رنگ کا دائرہ نظر آتا ہے جو میٹا کے اے آئی اسسٹنٹ کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ بطور ڈیفالٹ موجود رہتا ہے، اور صارفین کے لیے اسے ہٹانا یا غیرفعال کرنا ممکن نہیں ہے، جس نے ان میں تشویش پیدا کر دی ہے کہ یہ جبری فیچر ان پر مسلط کیا جا رہا ہے۔

میٹا کا مؤقف ہے کہ یہ فیچر مکمل طور پر اختیاری ہے اور صرف سہولت کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ اسسٹنٹ صارفین کو سوالات کے جوابات، تصویری تخلیق اور معلوماتی معاونت فراہم کرتا ہے، لیکن صارفین کی ایک بڑی تعداد اس کے غیر ارادی انضمام کو مداخلت تصور کر رہی ہے۔

پرائیویسی کے تحفظ کے حامیوں نے اس اقدام پر شدید تنقید کی ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر صارف کی یہ ضرورت نہیں کہ وہ اے آئی فیچرز استعمال کرے، اور جبری شمولیت نہ صرف رازداری کے اصولوں کے خلاف ہے بلکہ اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ صارفین کا ڈیٹا میٹا کے تربیتی ماڈلز میں استعمال ہو سکتا ہے۔

ناقدین نے مزید نشاندہی کی ہے کہ ان ماڈلز کی تربیت میں بعض اوقات ذاتی معلومات یا غیر قانونی مواد بھی شامل ہو سکتا ہے، جو ڈیٹا کے ممکنہ غلط استعمال کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس تمام صورتحال نے واٹس ایپ پر صارفین کے اعتماد کو متاثر کیا ہے، خاص طور پر ایسے افراد کے لیے جو اپنی آن لائن رازداری کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔

news

جسٹس منصور علی شاہ: ججز کو طاقتوروں نہیں، آئین کی زبان بولنی چاہیے

Published

on

جسٹس منصور علی شاہ

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں کہا ہے کہ ججوں کو وقتی اور چھوٹے مفادات کے لالچ میں نہیں آنا چاہیے، چاہے وہ ترقی ہو، طاقت ہو یا ذاتی فائدہ۔ ان کا کہنا تھا کہ ججوں کو آئین کی زبان بولنی چاہیے، نہ کہ طاقتور طبقے کی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے فوائد عارضی اور دھوکہ دہ ہوتے ہیں، اصل اجر ادارے کی ساکھ اور عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنے میں ہے۔

یہ ریمارکس انہوں نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی ایک درخواست مسترد کرتے ہوئے دیے، جس میں ایک خاتون اسسٹنٹ پروفیسر کی تقرری محض شادی کے بعد ڈومیسائل کی تبدیلی کی بنیاد پر منسوخ کی گئی تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس عقیل احمد عباسی کی توثیق سے تحریر کردہ فیصلے میں کہا کہ سپریم کورٹ صرف تنازعات کے حل کا ادارہ نہیں بلکہ قوم کا آئینی ضمیر ہے، جس کا کام ایک ایسی ترقی پسند اور اصولی فقہ تیار کرنا ہے جو آئین کو زندہ رکھے اور عوام کی بدلتی ضروریات سے ہم آہنگ ہو۔

انہوں نے زور دیا کہ عدلیہ کو کسی بھی بیرونی یا اندرونی دباؤ کا شکار ہوئے بغیر، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا تحفظ کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی جج آئینی اصولوں پر سمجھوتہ کرتا ہے، تو تاریخ اسے انصاف کے علمبردار کے بجائے ناانصافی کے ساتھی کے طور پر یاد رکھے گی۔ اندرونی تنقید کو غداری نہیں بلکہ ادارے سے وفاداری قرار دیتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدلیہ کو جمہوری اقدار کا محافظ بننا ہوگا، نہ کہ مصلحت کا آلہ۔

جاری رکھیں

news

آن لائن اکیڈمیز اور نان فائلرز پر نیا ٹیکس، سینیٹ کمیٹی کی تجاویز منظور

Published

on

آن لائن اکیڈمیز

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے آن لائن اکیڈمیز پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز منظور کرلی ہے۔ چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے انکشاف کیا کہ بعض آن لائن اکیڈمیز دو کروڑ روپے ماہانہ تک کما رہی ہیں، اس لیے ان پر ٹیکس لگانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ٹیچر آن لائن تعلیم سے آمدنی حاصل کر رہا ہے تو اسے بھی ٹیکس دینا ہوگا۔

اجلاس میں کلبز کی آمدنی پر بھی ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی، تاہم چیئرمین کمیٹی نے اس کی مخالفت کی، مگر دیگر ممبران نے حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ سہولت صرف چند سو افراد کی عیاشی کا ذریعہ ہے، جس پر ٹیکس عائد ہونا چاہیے۔ وزیر مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے کہا کہ ٹیکس صرف اسی وقت لگایا جائے گا جب کسی ادارے یا فرد کی آمدنی اخراجات سے زیادہ ہو۔

اس کے علاوہ ایف بی آر نے نان فائلرز کے لیے جائیداد کی خریداری پر پابندی کا عندیہ دیتے ہوئے بتایا کہ آئندہ بجٹ میں نان فائلرز کے لیے پراپرٹی خریدنے کی 130 فیصد حد مقرر کی جا رہی ہے۔ سینیٹر محسن عزیز نے اس حد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے تجویز دی کہ نان فائلرز کو ان کی آمدنی سے 500 فیصد زیادہ مالیت کی پراپرٹی خریدنے کی اجازت دی جائے، جسے کمیٹی نے منظور کر لیا۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں اور ان پر گزشتہ سال جرمانے بھی بڑھائے گئے تھے۔ کمیٹی نے آن لائن تعلیم دینے والے پلیٹ فارمز کو بھی باقاعدہ ٹیکس نیٹ میں لانے کی منظوری دے دی۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~