news
سینیٹ میں بھارت مخالف قرارداد متفقہ منظور، بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کا عزم
اسلام آباد: سینیٹ نے بھارت کے حالیہ غیر ذمہ دارانہ اقدامات اور بے بنیاد الزامات کے خلاف متفقہ طور پر قرارداد منظور کر لی۔ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت اجلاس میں معمول کی کارروائی معطل کرتے ہوئے بھارتی الزامات اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے خلاف قرارداد نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے پیش کی، جسے ایوان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کیا۔
قرارداد میں کہا گیا کہ پاکستان ہر قسم کی دہشتگردی کی مذمت کرتا ہے اور بھارت کے تمام الزامات کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ اگر بھارت نے کسی بھی مہم جوئی کی کوشش کی تو پاکستان منہ توڑ جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ قرارداد میں قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کی بھی تائید کی گئی اور کہا گیا کہ پانی بند کرنا اعلانِ جنگ کے مترادف تصور کیا جائے گا۔
اسحاق ڈار نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی ناقابل قبول ہے کیونکہ یہ پاکستان کے 24 کروڑ عوام کی لائف لائن ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ واہگہ بارڈر کو فوری طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مزید برآں، سارک ویزہ اسکیم کے تحت جاری کیے گئے بھارتی شہریوں کے ویزے منسوخ کر دیے گئے ہیں، تاہم سکھ یاتریوں پر یہ پابندی لاگو نہیں ہوگی۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ بھارت کی جانب سے اٹاری بارڈر بند کرنے کے ردعمل میں پاکستان نے واہگہ بارڈر بند کر دیا ہے، اور بھارتی ہائی کمیشن میں تعینات دفاعی اتاشیوں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی بھارتی ہائی کمیشن کے عملے کی تعداد کم کرکے 30 کر دی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے اپنی فضائی حدود بھارتی پروازوں کے لیے بند کر دی ہیں اور بھارت سے تمام قسم کی تجارت بھی معطل کر دی گئی ہے۔ اسحاق ڈار نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ روز 26 ممالک کے سفیروں کو دفتر خارجہ میں بھارتی اقدامات پر تفصیلی بریفنگ دی گئی، اور دوٹوک پیغام دیا گیا کہ اگر کسی نے پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھا تو وہ جان لے کہ پاکستان پوری طرح تیار ہے۔
یہ قرارداد بھارت کی جارحانہ پالیسیوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کے خلاف پاکستان کے عزم کا مظہر ہے، جس پر پوری قوم متحد ہے۔
news
کینیڈا میں پاکستانی ٹیکسٹائل کا چرچا: ATS شو 2025ء میں خریداروں کی بھرپور توجہ
کینیڈا کے شہر مسّی ساگا میں 29 ستمبر سے یکم اکتوبر 2025ء تک جاری رہنے والے “اپیرل ٹیکسٹائل سورسنگ (ATS) شو” میں پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت نے شاندار شرکت کی۔ اس بین الاقوامی تجارتی میلے میں پاکستان سمیت چین، بنگلا دیش، ویتنام اور کینیڈا کے نمائندوں نے حصہ لیا، جس نے اس نمائش کو عالمی سورسنگ اور صنعت سے جڑے ماہرین کے لیے ایک نمایاں پلیٹ فارم بنا دیا۔
پاکستانی نمائش کنندگان نے اعلیٰ معیار کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات پیش کیں، جن میں اسپورٹس ویئر، ٹیکنیکل ٹیکسٹائلز اور حفاظتی ملبوسات شامل تھے۔ یہ نمائش پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت میں مہارت، پائیداری اور ہائی پرفارمنس مصنوعات کی ترقی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔
شرکاء نے بتایا کہ اس سال کا رسپانس سابقہ برسوں کی نسبت خاصا بہتر رہا، اور متعدد خریداروں و صنعت کاروں سے مثبت تجارتی روابط قائم ہوئے۔ اس موقع پر شمالی امریکا میں ابھرتے ہوئے رجحانات، خاص طور پر ماحول دوست ٹیکسٹائل کی بڑھتی ہوئی مانگ سے متعلق قیمتی معلومات بھی حاصل کی گئیں، جو آئندہ تجارتی حکمتِ عملی کے لیے معاون ثابت ہوں گی۔
news
سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم پر سماعت کا آغاز
سپریم کورٹ آف پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر باقاعدہ سماعت کا آغاز ہو چکا ہے، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین کر رہے ہیں۔ آٹھ رکنی آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔ دورانِ سماعت جسٹس امین نے واضح کیا کہ عدالت آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرے گی اور جب تک آئینی ترمیم واپس نہیں لی جاتی، عدالت کو موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ چونکہ عدالت نے 26ویں آئینی ترمیم کو معطل نہیں کیا، اس لیے اسے فی الحال آئین کا حصہ تصور کیا جائے گا۔ درخواست گزار وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم پارلیمنٹ سے غیر معمولی انداز میں، رات کے وقت منظور کرائی گئی، اور سپریم کورٹ کے تمام ججز کو بینچ کا حصہ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کی ساخت متاثر ہوئی ہے، اور ججز کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جس سے عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست اثر پڑا ہے۔
عدالتی بینچ نے وکیل سے آئینی بینچ کے اختیارات پر دلائل طلب کیے اور یہ سوال اٹھایا کہ عدالت کس اختیار کے تحت فل کورٹ تشکیل دے سکتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے نشاندہی کی کہ جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں ہے، اور اگر عام مقدمات میں فل کورٹ تشکیل دی جا سکتی ہے تو اس حساس آئینی معاملے میں کیوں نہیں؟
-
news1 month ago
14 سالہ سدھارتھ ننڈیالا کی حیران کن کامیابی: دل کی بیماری کا پتہ چلانے والی AI ایپ تیار
-
کھیل5 months ago
ایشیا کپ 2025: بھارت کی دستبرداری کی خبروں پر بی سی سی آئی کا ردعمل
-
news6 months ago
رانا ثناءاللہ کا بلاول کے بیان پر ردعمل: سندھ کے پانی کا ایک قطرہ بھی استعمال نہیں کریں گے
-
news6 months ago
اداکارہ علیزہ شاہ نے سوشل میڈیا سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا