Connect with us

news

وزیراعظم شہباز شریف کا ایف بی آر میں ڈیجیٹائزیشن اور ریونیو بڑھانے پر زور

Published

on

شہباز شریف

اسلام آباد:
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ قرضوں کے بوجھ سے نجات حاصل کرنے کے لیے ملکی آمدن میں اضافہ ناگزیر ہے، اس مقصد کے لیے ریونیو بڑھانا ہوگا اور عدالتوں میں زیر التواء کھربوں روپے کے ٹیکس کیسز کا جلد فیصلہ ہونا چاہیے۔

ایف بی آر ہیڈکوارٹر اسلام آباد کے دورے کے موقع پر پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کا عمل شروع ہو چکا ہے، تاہم یہ ایک طویل اور چیلنجز سے بھرپور سفر ہے، جس میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ایک سال پہلے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایف بی آر کے تمام آپریشنز کو ڈیجیٹل نظام پر منتقل کیا جائے، اور اس کے لیے چیئرمین ایف بی آر، سیکرٹری فنانس، افسران اور تمام ٹیم نے بھرپور محنت کی ہے۔ انہوں نے ٹیم کو اس کامیابی پر مبارکباد پیش کی اور امید ظاہر کی کہ یہ سلسلہ اسی جذبے سے آگے بڑھے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ اگر ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا اور آمدن میں اضافہ نہ کیا تو قرضوں کا پہاڑ بڑھتا جائے گا اور آئی ایم ایف سے چھٹکارا ممکن نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں ایسے کئی کیسز زیر التواء ہیں جن میں اربوں روپے کا ٹیکس شامل ہے، صرف سندھ ہائی کورٹ کے ایک اسٹے آرڈر ختم ہونے سے 23 ارب روپے شام تک قومی خزانے میں واپس آئے۔

انہوں نے چبھتے ہوئے انداز میں سوال کیا کہ “ایسے بے شمار کیسز دہائیوں سے کیوں زیر التواء ہیں؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ عقل مند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے۔”

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایف بی آر نے ماضی میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا موثر استعمال نہیں کیا، مگر اب تمام اداروں کے اہلکاروں کو ایمانداری، جذبے اور محنت سے ملک کی خدمت کرنی ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ جو تبدیلی آنی چاہیے تھی، اس کا آغاز ہو چکا ہے۔

وزیراعظم کو دورے کے دوران پرال ڈیجیٹل انوائسنگ، پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم اور ایف بی آر کے نئے ڈلیوری یونٹ کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ بتایا گیا کہ اب ایف بی آر میں ڈیٹا بیس پر مبنی فیصلہ سازی کا نظام متعارف کرایا جا رہا ہے، جس میں نادرا، بینکنگ اور دیگر اداروں سے ڈیٹا حاصل کر کے ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے گا۔

وزیراعظم نے افسران کی کارکردگی جانچنے کے لیے خودکار اور ڈیجیٹل سسٹم کے آغاز کا بھی اعلان کیا، جس کے تحت کارکردگی کی بنیاد پر مالی فوائد اور ترقی دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب آپ نیک نیتی سے سفر کا آغاز کرتے ہیں تو اللہ بھی مدد کرتا ہے، اور ہم تیزی سے اسی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کے لیے پاکستان معرض وجود میں آیا۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

کینیڈا میں پاکستانی ٹیکسٹائل کا چرچا: ATS شو 2025ء میں خریداروں کی بھرپور توجہ

Published

on

By

کینیڈا

کینیڈا کے شہر مسّی ساگا میں 29 ستمبر سے یکم اکتوبر 2025ء تک جاری رہنے والے “اپیرل ٹیکسٹائل سورسنگ (ATS) شو” میں پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت نے شاندار شرکت کی۔ اس بین الاقوامی تجارتی میلے میں پاکستان سمیت چین، بنگلا دیش، ویتنام اور کینیڈا کے نمائندوں نے حصہ لیا، جس نے اس نمائش کو عالمی سورسنگ اور صنعت سے جڑے ماہرین کے لیے ایک نمایاں پلیٹ فارم بنا دیا۔

پاکستانی نمائش کنندگان نے اعلیٰ معیار کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات پیش کیں، جن میں اسپورٹس ویئر، ٹیکنیکل ٹیکسٹائلز اور حفاظتی ملبوسات شامل تھے۔ یہ نمائش پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت میں مہارت، پائیداری اور ہائی پرفارمنس مصنوعات کی ترقی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔

شرکاء نے بتایا کہ اس سال کا رسپانس سابقہ برسوں کی نسبت خاصا بہتر رہا، اور متعدد خریداروں و صنعت کاروں سے مثبت تجارتی روابط قائم ہوئے۔ اس موقع پر شمالی امریکا میں ابھرتے ہوئے رجحانات، خاص طور پر ماحول دوست ٹیکسٹائل کی بڑھتی ہوئی مانگ سے متعلق قیمتی معلومات بھی حاصل کی گئیں، جو آئندہ تجارتی حکمتِ عملی کے لیے معاون ثابت ہوں گی۔

جاری رکھیں

news

سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم پر سماعت کا آغاز

Published

on

By

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر باقاعدہ سماعت کا آغاز ہو چکا ہے، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین کر رہے ہیں۔ آٹھ رکنی آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔ دورانِ سماعت جسٹس امین نے واضح کیا کہ عدالت آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرے گی اور جب تک آئینی ترمیم واپس نہیں لی جاتی، عدالت کو موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ چونکہ عدالت نے 26ویں آئینی ترمیم کو معطل نہیں کیا، اس لیے اسے فی الحال آئین کا حصہ تصور کیا جائے گا۔ درخواست گزار وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم پارلیمنٹ سے غیر معمولی انداز میں، رات کے وقت منظور کرائی گئی، اور سپریم کورٹ کے تمام ججز کو بینچ کا حصہ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کی ساخت متاثر ہوئی ہے، اور ججز کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جس سے عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست اثر پڑا ہے۔

عدالتی بینچ نے وکیل سے آئینی بینچ کے اختیارات پر دلائل طلب کیے اور یہ سوال اٹھایا کہ عدالت کس اختیار کے تحت فل کورٹ تشکیل دے سکتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے نشاندہی کی کہ جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں ہے، اور اگر عام مقدمات میں فل کورٹ تشکیل دی جا سکتی ہے تو اس حساس آئینی معاملے میں کیوں نہیں؟

جاری رکھیں

Trending

Copyright © 2024 Sahafat Group of Publications . Powered by NTD.

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~