حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن سینیٹر عرفان صدیقی نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ٹی آئی نے مذاکرات کی دوسری نشست میں عمران خان، شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد، اعجاز چوہدری اور محمود الرشید کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ ایک انٹرویو میں عرفان صدیقی نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے پی ٹی آئی کمیٹی سے رابطہ کیا اور مذاکرات کی دعوت دی۔ ہمارا پہلے موقف تھا کہ حکومتی کمیٹی تحلیل کر دیں، لیکن 31 جنوری تک یہ برقرار رہی۔ ہم آج بھی میٹنگ کے لیے تیار ہیں، لیکن پی ٹی آئی نے مذاکراتی کمیٹی تحلیل کر دی۔ یہ ایک سیاسی اور جمہوری پارلیمانی رویہ ہے جس میں سخت مزاجی نہیں لانا چاہتے، ہم بچوں والا کھیل نہیں بنانا چاہتے کہ اب مذاکرات نہیں ہوں گے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ طے کیا گیا تھا کہ باہر کچھ بھی ہو، کمیٹیوں پر اس کا اثر نہیں پڑے گا، لیکن اس کے بعد پی ٹی آئی نے ایسا رویہ اختیار کیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ میرے ذرائع کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ان کا کوئی رابطہ نہیں ہوا، اور ان کی کوئی پذیرائی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ساری پالیسیوں کا مقصد عمران خان کو اڈیالہ سے باہر لانا ہے، اور ان کی پالیسی کا محور بھی یہی ہے کہ وہ کس طرح جیل سے باہر آئیں۔ پی ٹی آئی نے دو مطالبات کی آڑ میں پندرہ مطالبات پیش کیے، اور وہ ہمارا جواب سنے بغیر ہی مولانا فضل الرحمٰن کی طرف بڑھ گئے۔