news
اٹھارہ ماہ میں پی ٹی اے کے احتجاج اور دھرنوں کو روکنے پر حکومت نے 2 ارب 70 کروڑ اڑا دیے
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں کے دوران حکومتی اخراجات کے اعداد و شمار منظر عام پر آ گئے ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان احتجاجوں اور دھرنوں کو کنٹرول کرنے پر حکومت کو بھاری اخراجات برداشت کرنے پڑے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 18 ماہ کے دوران پی ٹی آئی کے دھرنوں اور احتجاجوں کو قابو میں رکھنے پر 2 ارب 70 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ ان میں سے پچھلے 6 ماہ کے دوران ایک ارب 20 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ یہ اخراجات بنیادی طور پر سیکیورٹی اقدامات، کنٹینرز کی کرایہ داری، اور پولیس فورس کی تعیناتی پر آئے۔
تفصیل کے مطابق، اخراجات کی تقسیم کچھ یوں ہے
کنٹینرز کی کرایہ داری: 80 کروڑ روپے کی رقم 3 ہزار کنٹینرز کے کرائے پر خرچ ہوئی، جو مختلف مقامات پر دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لیے استعمال کیے گئے۔
سیکیورٹی اہلکاروں کی ٹرانسپورٹ: 90 کروڑ روپے سے زائد رقم سیکیورٹی اہلکاروں کی ٹرانسپورٹ پر خرچ ہوئی۔
پولیس کی ٹرانسپورٹ اور کھانا: تقریباً ڈیڑھ ارب روپے کا خرچ پولیس اہلکاروں کے کھانے اور ان کی ٹرانسپورٹ پر آیا۔
ایف سی، رینجرز اور فوج کی تعیناتی: 30 کروڑ روپے ان فورسز کی تعیناتی پر خرچ ہوئے۔
پولیس اہلکاروں کی تعداد: اسلام آباد میں 12 ہزار اور پنجاب میں 16 ہزار پولیس اہلکاروں کو ڈیوٹیز پر لگایا گیا۔
نقصان: ایک ارب 50 کروڑ روپے کی مالیت کی سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچا، جو دھرنوں اور احتجاجوں کے دوران ہوئی خرابیاں اور تباہی کا نتیجہ تھا۔
یہ اعداد و شمار اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے احتجاجوں اور دھرنوں نے نہ صرف عوامی زندگی کو متاثر کیا بلکہ حکومت کو بھی بھاری مالی بوجھ ڈال دیا۔ سیکیورٹی کے اخراجات، خصوصاً کنٹینرز، پولیس اہلکاروں کی تعیناتی، اور فورسز کی تعیناتی پر ہونے والے اخراجات نے حکومتی خزانے پر اضافی دباؤ ڈالا۔
یہ صورتحال حکومتی پالیسی اور احتجاجی سیاست کے درمیان موجود تناؤ کو مزید واضح کرتی ہے۔ جہاں ایک طرف سیاسی جماعتیں اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کرتی ہیں، وہیں دوسری طرف حکومت کو عوامی سیکیورٹی اور معیشت پر پڑنے والے اثرات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔
head lines
جسٹس اعجاز سواتی بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مقرر، جوڈیشل کمیشن نے منظوری دیدی
جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس اعجاز سواتی کی بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر تقرری کی منظوری دی گئی۔ یہ اجلاس چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی صدارت میں منعقد ہوا، جہاں بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کے لیے مختلف ناموں پر غور کیا گیا۔ اجلاس کے دوران، جوڈیشل کمیشن کے دیگر معزز اراکین نے جسٹس اعجاز کی اہلیت، تجربے اور عدالتی کارکردگی کی تعریف کی، جس کے بعد ان کے نام پر اتفاق رائے سے منظوری دی گئی۔
بعد میں، تفصیلی مشاورت کے بعد، جوڈیشل کمیشن نے جسٹس اعجاز کی بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر تقرری کی باضابطہ منظوری دی۔ اس سے پہلے، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے 19 مئی کو ہونے والے اجلاس کا ایجنڈا تبدیل کیا گیا تھا۔
یہ بتایا گیا کہ اس اجلاس میں صرف بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا معاملہ زیر غور لایا جائے گا۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ، پشاور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے نام جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ کمیشن کے 19 مئی کو بلائے گئے اجلاس میں ان چیف جسٹس کی تقرری کا معاملہ موخر کر دیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں ان چیف جسٹس کی تقرری کے معاملے پر غور نہیں ہوگا۔ اب 19 مئی کو جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں صرف بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری پر بات چیت ہوگی۔
head lines
ریاست مخالف مواد: معروف یوٹیوبرز کے خلاف کارروائی کا فیصلہ، پی ٹی اے نے اجازت طلب کرلی
اسلام آباد، 19 مئی 2025 – پاکستان میں معروف یوٹیوبرز عمران ریاض، صابر شاکر، صدیق جان، شہباز گل اور دیگر افراد کے خلاف ریاست مخالف مواد پھیلانے کے الزام میں قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ان یوٹیوبرز کی فہرست حکومت کو پیش کر دی ہے اور ان کے یوٹیوب چینلز بند کرنے کے لیے باضابطہ اجازت طلب کرلی ہے۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ افراد پر ریاستی اداروں کے خلاف بیانیہ فروغ دینے اور عوام کو گمراہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ پی ٹی اے کی جانب سے مرحلہ وار کارروائی کا آغاز حکومت کی منظوری کے بعد کیا جائے گا۔
مزید یہ کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی سوشل میڈیا پر ریاست مخالف سرگرمیوں کی مسلسل نگرانی کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں نہ صرف ان یوٹیوبرز کے خلاف قانونی اقدامات کی توقع ہے بلکہ ممکنہ سوشل میڈیا پابندیاں اور گرفتاریوں کا بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
یوٹیوب کی پالیسی کے مطابق اگر کسی صارف کا چینل بند کیا جاتا ہے تو انہیں باقاعدہ اطلاع دی جاتی ہے اور وہ کسی دوسرے چینل کے ذریعے اس بندش کو بائی پاس کرنے کے مجاز نہیں ہوتے۔ یوٹیوب پارٹنر پروگرام کے تحت بند چینلز کو کوئی آمدنی نہیں دی جاتی اور ان کی غیر ادا شدہ رقم بھی روکی جا سکتی ہے۔
یہ پیش رفت پاکستان میں آن لائن مواد کے ضوابط اور ریاستی سیکیورٹی سے متعلق سخت موقف کی عکاسی کرتی ہے، جس کا مقصد مبینہ طور پر ملک دشمن پروپیگنڈے کا سدباب کرنا ہے۔
- سیاست8 years ago
نواز شریف منتخب ہوکر دگنی خدمت کریں گے، شہباز کا بلاول کو جواب
- انٹرٹینمنٹ8 years ago
راحت فتح علی خان کی اہلیہ ان کی پروموشن کے معاملات دیکھیں گی
- انٹرٹینمنٹ8 years ago
شعیب ملک اور ثنا جاوید کی شادی سے متعلق سوال پر بشریٰ انصاری بھڑک اٹھیں
- انٹرٹینمنٹ8 years ago
پاکستانی فلم’نایاب‘سینماگھروں کی زینت بننےکوتیار،تاریخ سامنے آگئی