Connect with us

news

ترسیلات زر میں اضافہ، سٹیٹ بینک آف پاکستان 

Published

on

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی گئی ترسیلات زر اکتوبر 2024 ء کے دوران 3.0ڈ52 ارب ڈالر رہیں جو کہ سالانہ کی بنیاد پر 24 فیصد زیادہ ہیں جبکہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں بھیجی جانے والی یہ رقوم 2.463 ارب ڈالر تھیں
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی طرف سے جاری کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق ماہانہ کی بنیاد پر اکتوبر میں ترسیلات زر ستمبر 2024 کے 2.86 ارب ڈالر کے مقابلے میں 7 فیصد زائد رہی ہیں
مالی سال 2025 کے ابتدائی چار ماہ میں ترسیلات زر تقریبا 35 فیصد اضافے کے ساتھ 11.8 ارب ڈالر رہیں جو مالی سال 2024 کے 4 ماہ کے دوران 8.8 ارب ڈالر تھیں۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان
ماہرین نے ترسیلات زر میں اضافے کا ذمہ دار، شرح تبادلہ کے استحکام، اوپن اور انٹربینک مارکیٹ ریٹس کے درمیان فرق میں کمی ، ڈیجیٹل ادائیگی چینلز میں اضافہ اور بیرون ملک منتقل ہونے والے کارکنوں کی تعداد میں اضافے کو قرار دیا ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان
ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے سی ای او محمد سہیل نے اپنے ایک تحریری بیان میں کہا کہ اس طرح کی مضبوط سرمایہ کاری سے پاکستان کو روپے کے استحکام کو برقرار رکھنے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے میں بڑی مدد ملے گی۔
ترسیلات زر ملک کے بیرونی کھاتوں کو مستحکم کرنےاور معاشی سرگرمیوں کو متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ ترسیلات زر پر منحصر گھرانوں کی قابل استعمال آمدنی میں اضافے کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
ترسیلات زر کا خاتمہ
سعودی عرب میں قیام پزیر پاکستانیوں نے اکتوبر 2024 میں سب سے زیادہ رقم بھیجی تھی کیونکہ انہوں نے اس ماہ 766.7 ملین ڈالر بھیجے۔ یہ رقم ماہانہ کی بنیاد پر 12 فیصد زیادہ ہے، اسی طرح پچھلے سال کے اسی ماہ میں تارکین وطن کی طرف سے بھیجے گئے 616.8 ملین ڈالر کے مقابلے میں 24 فیصد زیادہ تھی۔
متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے ماہانہ کی بنیادوں پر ترسیلات زر میں 10 فیصد بہتری ہوئی، جو کہ ستمبر میں 562.7 ملین ڈالر سے بڑھ کر اکتوبر میں 620.9 ملین ڈالر ہوگئی سالانہ بنیادوں پر ترسیلات زر میں 31 فیصد تک اضافہ ہوا جو پچھلے سال کے اسی مہینے میں 473.9 ملین ڈالر تھی ۔
اس مہینے کے دوران برطانیہ سے ترسیلات زر 429.5 ملین ڈالر رہیں جو ستمبر 2024 میں 424.1 ملین ڈالر کے مقابلے میں ایک فیصد سے زیادہ ہیں۔ سالانہ بنیاد پر اس میں 30 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
اسی دوران یورپی یونین سے ترسیلات زر میں 2 فیصد تک کمی واقع ہوئی اور یہ اکتوبر 2024 میں 359.1 ملین ڈالرہوئی جو کہ ستمبر میں 365.5 ملین ڈالر تھی۔
اکتوبر 2024 میں امریکہ میں قیام پزیر پاکستانیوں نے 299.3 ملین ڈالر بھیجے جو کہ ماہانہ کی بنیاد پر 8 فیصد اضافہ ہے۔
گزشتہ مہینے اسٹیٹ بینک نے ترسیلات زر کے بہاؤ میں اضافے کے لیے بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں (ای سیز) کے لیے مراعاتی ڈھانچے میں تبدیلی کی گئی اس نظام کے تحت بینکوں اور اور سیز دونوں کو دو طرح کی ترغیبات 1-فکسڈ کمپونینٹ ترغیبات 2- متغیر اجزاء کی ترغیبات ملیں گی ۔

news

اقتصادی ترقی سرمایہ کاری اور مقروض کے تحفظ کے لیے ملک میں موثر و مضبوط دیوالیہ نظام کا قیام

Published

on

محمد اورنگزیب

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے حکومت کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ سرمایہ کاری، اقتصادی ترقی اور قرض دہندگان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک مؤثر اور مضبوط دیوالیہ نظام کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے جمعہ کو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے زیر اہتمام دیوالیہ اور قرضوں کی وصولی پر اسٹیک ہولڈرز کے مشاورتی اجلاس سے خطاب کے دوران کہا کہ “اب کرنسی کا تعین مارکیٹ کی قوتوں کے ذریعے ہی ہوگا۔ کوئی یہ فیصلہ نہیں کرے گا کہ ملک کہاں ہونا چاہیے ایسا وقت گزر چکا ہے۔

کانفرنس میں بین الاقوامی مندوبین، تمام ہائی کورٹس کے ججز، وکلاء، ریگولیٹرز اور پالیسی میکرز نے شرکت کی۔

وفاقی وزیر نے معاشی استحکام اور قرضوں کے حل کے بہتر فریم ورک کے لئے اس کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔ اورنگ زیب نے سازگار کاروباری ماحول پیدا کرنے کے لئے حکومت کے عزم پر بھر پور زور دیا۔

انہوں نے ورکنگ گروپ تشکیل دینے کے خیال سے اتفاق کیا لیکن اس بات پر بھی زور دیا کہ نجی شعبے کو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پیشرفت کو آگے لے جایا جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نجی شعبے کو ملک کی قیادت کرنی ہوگی اور حکومت پالیسی فریم ورک اور پالیسی کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے ہر لمحہ موجود ہے۔

دیوالیہ اور منظم قرضوں کے حل کے فریم ورک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے یہ کہا کہ یہ فریم ورک ایک معاون ماحول فراہم کرے گا، جہاں قرضوں تک رسائی اور مالی وسائل کے حصول کو آسان بنایا جائے گا، اور ساتھ ہی اگر کوئی مشکل میں پڑ جائے تو اسے منظم طریقے سے بچانے کا نظام بھی فراہم کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ میری تمام بینکاری ماہرین سے درخواست ہے کہ ہماری اولین کوشش کاروبار کی بحالی پر ہی ہونی چاہیے۔ ادائیگی کی خواہش اور ادائیگی کی صلاحیت کے درمیان فرق کرنا بہت ہی ضروری ہے۔“

انہوں نے کہا کہ اگر مسئلہ ادائیگی کی خواہش کا ہو توپھر یہ ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن اگر ”ادائیگی کی صلاحیت“ کا مسئلہ ہو تو بینکاری ماہرین کو چاہیے کہ مینجمنٹ اور اسپانسرز کے ساتھ مل کر ایسا حل تلاش کرلیں جو انہیں عدالتوں یا دیگر پیچیدہ مراحل میں دھکیلنے کے بجائے بحالی کے عمل میں مدد فراہم کرے۔ بورڈ اور مینجمنٹ کو ایسے معاملات میں فیصلہ کرنا چاہیے کہ اگر ادائیگی کی صلاحیت موجود ہے اور اگلے دو سے تین سالوں میں بحالی ممکن ہو تو انہیں ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جو بحالی کے امکانات کو ختم کریں۔

جاری رکھیں

news

دس جنوری سے 30 ماہ کی پابندی کے بعد یورپ کے لیے پی آئی اے پروازوں کا آغاز

Published

on

پی آئی اے

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی ایوی ایشن ریگولیٹر کی طرف سے پابندی ختم کیے جانے کے بعد یورپ کے لیے اس کی پروازیں جنوری سے بحال کی جائیں گی اور اس کا آغاز پیرس سے ہوگا۔

پی آئی اے کو یورپی یونین میں آپریشن کی اجازت جون 2020 میں اس خدشے کے پیشِ نظر معطل کر دی گئی تھی کہ پاکستانی حکام اور سول ایوی ایشن اتھارٹی بین الاقوامی ایوی ایشن معیارات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے میں ناکام ہو سکتی ہے۔

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان کا کہنا ہے کہ ہم نے پہلی پرواز کے شیڈول کے لیے منظوری حاصل لے لی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایئرلائن 9 دسمبر کو منصوبہ بندی کے مطابق 10 جنوری کی پرواز کے لیے بکنگ شروع کرے گی جو بوئنگ 777 کے ذریعے پیرس روانہ ہوگی۔

یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی اور برطانیہ نے پی آئی اے کی خطے میں پروازوں کی اجازت اس وقت معطل کی تھی جب پاکستان نے طیارہ حادثے کے بعد پائلٹس کے لائسنس کی قانونی حیثیت سے متعلق اسکینڈل کی تحقیقات شروع کی گئی تھیں۔

عبداللہ حفیظ خان نے کہا کہ پی آئی اے بہت جلد برطانیہ کے لئے روٹس بحال کرنے کی اجازت سے متعلق برطانیہ کے محکمہ ٹرانسپورٹ (ڈی ایف ٹی) سے رابطہ کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈی ایف ٹی کی منظوری کے بعد لندن، مانچسٹر اور برمنگھم سب سے زیادہ ڈیمانڈ کے مقامات ہوں گے۔

اس پابندی کے باعث خسارے میں چلنے والی ایئر لائن کو سالانہ 40 ارب روپے (144 ملین ڈالر) کا نقصان اٹھانا پڑا۔

پی آئی اے کے پاس پاکستان کی مقامی ایوی ایشن مارکیٹ کے 23 فیصد شیئرز ہیں لیکن اس کے 34 طیاروں پر مشتمل بیڑا انٹرنیشنل ایئرلائنز سے مطابقت نہیں کرسکتا جن کے پاس 60 فیصد شیئرز موجود ہیں کیوں کہ 87 ممالک کے ساتھ معاہدوں اور لینڈنگ سلاٹس کے معاہدے کے باوجود قومی ایئرلائن کے پاس براہ راست بین الاقوامی پروازوں کی کافی کمی ہے۔

پاکستان کی طرف سے پی آئی اے کی نجکاری کی کوششیں اس وقت ناکام ہوگئی تھیں جب اسے صرف ایک پیشکش موصول ہوئی جو اس کی طلب کردہ قدر سے کافی کم تھی

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~